Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

صباحت ابھی عادلہ اور عائزہ کے درمیان ہونے والی گفتگو اتفاقاً سن کر اس مسئلے کا حل سوچ بھی نہ پائی تھیں کہ اچانک اماں کی خراب ہونے والی طبیعت نے کسی حد تک ان کو بھی پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا چند دنوں میں اماں کی طبیعت سنبھلی تو وہ آج ہسپتال سے ڈسجارج ہو کر گھر آئی تھیں سب گھر والوں نے شکر کاسانس لیا اور وہ بھی عادلہ سے بات کرنے اس کے روم میں آئیں تو عادلہ کو واش روم میں الٹیاں کرتے دیکھ کر وہ شاکڈ دروازے کے پاس ہی کھڑی رہی گئیں۔

”ممی… ممی… مجھے بچا لیں۔“ عادلہ بے حال انداز میں واش بیسن میں منہ ہاتھ دھو کر پلٹی اور ان کو کھڑی دیکھ کر گلے لگتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ صباحت کا سکتہ ٹوٹا انہوں نے عادلہ کو دور کرتے ہوئے تیزی سے دروازہ لاکڈ کیا اور اس کو غصے سے گھورتے ہوئے گویا ہوئیں۔


”یہ کیا کیا تم نے عادلہ! ہمیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا؟ ایسا کرنے سے پہلے اپنے باپ کی عزت کا تو خیال کر لیا ہوتا کچھ۔
“ وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر وحشت زدہ لہجے میں گویا ہوئیں۔”میں تم پر عائزہ سے زیادہ اعتماد کرتی تھی مجھے بے حد بھروسہ تھا تم پر لیکن وہ تم سے زیادہ مضبوط ثابت ہوئی ،اس بھیڑیئے سے اپنی عصمت بچا کر وہاں سے بھاگ آئی اور ایسی ہوس زدہ محبت سے توبہ کر لی پھر اس ناکردہ جرم کی سزا کاٹ رہی ہے فاخر اس کی پارسائی کا یقین کرنے کو تیار نہیں وہ اس کی آواز سننا بھی گوارا نہیں کرتا ہے حالانکہ خاوند ہے وہ اس کا ،ایجاب و قبول ہوا ہے ان کے درمیان مگر وہ کسی بھی سمجھوتے پر راضی نہیں ہے اور تم…“ تیز تیز بولتے ہوئے اس کی سانس پھولنے لگی تو وہ خاموش ہو گئیں۔
”مجھ سے غلطی ہو گئی ممی ،میں شیری کی باتوں میں بہک گئی تھی۔“ اس کی آواز میں پچھتاوے لرز رہے تھے۔
”چند دنوں کی دوستی میں بہک گئی تم عادلہ! شیری کو قابو کرنے کے اور بھی طریقے تھے اس نے تم کو پرپوز بھی نہیں کیا اور تم…“
”آپ نے ہی تو کہا تھا کسی بھی طرح شیری کو قابو کرنا ہے۔“
”وہ ہو گیا قابو… پالتو بن گیا تمہارا… بے وقوفی کی باتیں کرتی ہو مجھ سے ،اب کیا ہو گا میرا تو دماغ کام نہیں کر رہا ہے گھر میں کسی کو خبر ہو گئی توبہت برا ہوگا اور فیاض کو خبر ہو گئی تو…“ بے حد خوف زدہ انداز میں جھرجھری لے کر وہ بدحواس عادلہ کو دیکھتے ہوئے بولیں۔
”ایسا نہیں ہوگا ممی! میں کسی نہ کسی طرح شیری کو شادی کرنے کیلئے راضی کر ہی لوں گی پلیز آپ کو میرا ساتھ دینا ہوگا اس مشکل میں۔“
”ہونہہ میری زندگی تم نے مشکل میں ڈال دی ہے نامعلوم کس منحوس گھڑی میں اس دنیا میں آئی ہو تم لوگ جو تمہارے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ میری مشکلات بھی بڑی ہو رہی ہیں۔ گڑھا پری کیلئے کھودا تھا تم نے بدچلن شیری کی نظروں میں اس کو ثابت کیا تھا اور گمراہی کے گڑھے میں خود گر گئی ہو ،لعنت ہو تم پر۔
”یہ جو بھی ہوا اس میں شہ آپ کی دی ہوئی ہے آپ نے ہی کہا تھا ،شیری کو حاصل کرنے کیلئے جس حد تک بھی جانا ہو جاؤ۔“ وہ روتے ہوئے بھی پوری طرح اپنی غلطی ماننے کو تیار نہ تھی۔
”شٹ اپ ،منہ بند کرو اپنا ،یہ تمہاری عادت ہے غلطی کرکے غلطی مانتی کب ہو ،رونا بند کرو کسی لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے چلوں گی معاملہ صاف کرانے کیلئے مگر اس سے قبل ایک بار شیری سے بات کر لو ،وہ کیا چاہتا ہے؟“
###
اعوان سے اس کی تکرار بڑھتی تھی مگر اعوان اس کو یہاں چھوڑ کر جانے کیلئے بالکل بھی نہ مانا تھا پھر اس کو قائل کرنے کیلئے ماہ رخ کے پاس ٹائم بھی نہ تھا۔
غفران احمر محل میں موجود تھا اور وہ کسی بھی وقت کس موڈ میں آ جائے کچھ بھروسہ نہ تھا ویسے تو وہ نکاح ہونے تک اس سے ملاقات کرنے سے اجتناب برت رہا تھا مگر اس کی متلوج مزاج طبیعت سے کچھ بعید نہ تھا کہ وہ اس کی خواب گاہ میں آ دھمکے اور اس کو وہاں نہ پا کر وہ کیا کر گزرے کہ اس کی سخت مزاج فطرت سے سب کچھ ممکن تھا۔ مجبوری کے عالم میں وہ دوسرے راستے سے اپنی خواب گاہ میں داخل ہوئی اور بیڈ پر پریشان کن انداز میں بیٹھ گئی۔
قید کسے پسند آتی ہے۔ پرندوں کو آزاد فضاؤں سے پکڑ کر سونے کے پنجرے میں بھی قید کر دو تو سونے کے پنجرے سے زیادہ اس کو اپنی آزادی قیمتی لگتی ہے وہ بھی تو طویل عرصہ یہاں گزارنے کے باوجود ان قیمتی درو دیواروں سے مانوس نہ ہو سکی تھی مگر آج سے قبل اس کے دل میں یہاں سے فرار کی امنگ بھی بیدار نہ ہوئی تھی اور ہوتی بھی کیونکر کوئی تھا ہی نہیں جو اس کو وہ آزادی کے دنوں کی یاد دلاتا جب وہ بھی کسی حسین چڑیا کی مانند فضاؤں میں گھوما کرتی تھی۔
”ماہ رخ کس سوچوں میں گم ہو؟ خواہشوں کی دلدل میں پھر پاؤں رکھنا چاہتی ہو۔ تم تو پہلے ہی اس دلدل میں ڈوب چکی ہو ،کس طرح نکل پاؤں گی؟“ اس کے اندر کوئی گھائل انداز میں بولا۔
”میں نکل جاؤں گی میں اس غلیظ دلدل سے نکلنا چاہتی ہوں میں پھر سے پاک و صاف ہونا چاہتی ہوں۔ اعوان مجھے موقع دے رہا ہے تو میں اس موقع کو ضائع کرنا نہیں چاہتی ہوں۔
“ وہ خود سے مخاطب ہوئی۔
”بے وقوفی مت کرو ،اعوان کو جانے دو ،وہ تم کو کسی طرح بھی یہاں سے نہیں لے کر جا سکتا ،یہ علاقہ غفران احمر کا ہے یہاں اس کی حکومت ہے کوئی پرندہ بھی اس کی اجازت کے بناء پر نہیں مار سکتا پھر تم کس طرح اور کس کس کی آنکھوں میں دھول جھوک کر جا سکتی ہو ،وہ کوئی جادوگر تو ہے نہیں جو تم کو مکھی بنا کر لے جائے گا۔“
”ہاں میں کس طرح جا سکتی ہوں ،میرا جسم ہی نہیں میری روح بھی تو غفران احمر کے پاس قید ہے۔
مجھے ایسے سپنے نہیں دیکھنے چاہئیں جن خوابوں کی تعبیر بہت بھیانک ہوتی ہے۔“ وہ اٹھی اور واش روم کی طرف بڑھ گئی اور خاصی دیر تک منہ دھونے کے بعد کمرے میں آئی تو وہاں ذاکرہ کو اپنا منتظر پایا وہ ٹرالی لئے کھڑی تھی۔
”رانی صاحبہ! قہوہ سادہ لیں گی یا دودھ کے ساتھ؟“ اس کو دیکھ کر وہ مودبانہ انداز میں استفسار کرنے لگی۔
”دودھ ڈال دو۔
“ وہ کہتی ہوئی صوفے پر بیٹھ گئی اس کی نگاہیں ذاکرہ پر تھیں ،سفید رنگت و متناسب جسم والی ذاکرہ ادھیڑ عمر میں بھی خاصی پر کشش تھی ،بے حد نفاست سے چائے بنا کر اس نے پیش کی تھی۔
”ذاکرہ! غفران احمر نے حاجرہ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟“
”آپ کو نہیں پتارانی جی! اس کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔“ ذاکرہ کے دبے دبے لہجے میں خوف تھا۔
”وہ مجھے معلوم ہے میری وجہ سے ہی اس بے چاری کی حالت بری ہوئی ہے لیکن وہ اس وقت کہاں ہے ملازم اٹھا کر اس کو کہاں لے گئے ہیں۔
”رئیس کے حکم پر اس کو تہہ خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔“
”تہہ خانے میں… اس کی چوٹوں کا علاج نہیں کیا گیا ہے؟“ وہ ہاتھ میں پکڑا کپ ٹرالی پر رکھ کر بے چین لہجے میں بولی۔
”رئیس کا حکم نہیں ہے۔“
”وہ در سے تڑپ تڑپ کر مر جائے گی۔“
”بھوک و پیاس سے بھی۔ اس کو کھانا و پانی دینے پر بھی پابندی ہے کیا؟“ ماہ رخ سخت حواس باختہ تھی۔
”اس سے ملنے پر بھی پابندی ہے رانی صاحبہ! رئیس کا حکم ہے تین دن تک اس کو کوئی دیکھے گا ہی نہیں اور کسی میں بھی جرأت نہیں ہے جو رئیس کے حکم سے سرتابی کریں۔“
”تین دن تک اس حالت میں وہ کس طرح زندہ رہے گی؟“
”60 سال ہو گئے ہیں مجھے یہاں پر اتنے سالوں میں بے شمار لوگوں کو زندہ اس تہہ خانے میں جاتے دیکھ چکی ہوں مگر مردہ حالت میں انہیں وہاں سے نکالا جاتا ہے اور رات کے ہی اندھیرے میں گڑھا کھود کر دفن کرکے جگہ برابر کر دی جاتی ہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی ہے۔
“ ماہ رخ کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا اور وہ بے ہوش ہو گئی۔
###
ان کے درمیان ہونے والی رنجش خلیج کی صورت اختیار کر گئی تھی وہ پری سے سخت ناراض تھا بلکہ بدگمان ہو کر رہ گیا تھا۔ طغرل نے گھر کی کنسٹرکشن میں زیادہ ٹائم دینا شروع کر دیا تھا۔ ویسے بھی آج کل وہ ذہنی طور پر پریشان تھا۔ متواتر مذنہ کی کالز آ رہی تھیں اور وہ اس کو فورس کر رہی تھیں وانیہ سے شادی کرنے پر وہ راضی ہو جائے طلحہ اور فریحہ نے اپنی پسند سے شادیاں کی تھیں۔
وہ ان شادیوں پر دل کے ارمان پورے نہیں کر سکی تھی اب دل کے ارمان وہ اس کی اور وانیہ کی شادی پر پورے کرنا چاہتی تھیں۔ یہ ان کی گفتگو کا لب لباب ہوتا تھا۔
سڈنی میں وانیہ نے مذنہ کی شہ پر ہی اس کو اپنی محبت کے جال میں پھانسنے کی پوری پوری کوشش کی تھی جبکہ وہ پری کی محبت میں ڈوب چکا تھا۔ خوبصورت و تیکھے نقوش والی وانیہ کے ہر جال کو اس نے مات دے دی تھی وہ بھی ڈھیٹ لڑکی تھی اس سے دست بردار ہونے کو قطعی تیار نہ تھی وہ ہر ممکن اس کو پانے کی کوشش میں مگن تھی وہ اس کی کالز ریسیو نہیں کرتا تھا تو وہ میل بکس پر اپنے میسجز پوسٹ کیا کرتی تھی اور وہ اگنور کرتا رہا۔
”تم یہیں ہو تھینکس گاڈ ورنہ میں سمجھ رہا تھا کہ تم کوئی دوسری دنیا دریافت کرنے نکل پڑے ہو جو پلٹ کر کسی کی خبر نہیں لے رہے۔“ معید نے آفس میں آتے ہوئے خاطے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”ہا ہا ،یہ کیا فارمیلٹی ہے سلام نہ دعا آتے ہی طنز کا تیر دے مارا۔“ وہ اٹھ کر اس سے گلے ملتے ہوئے ہنس کر گویا ہوا۔
”انداز نانی اور جان جان والا ہے مگر ان جیسی محبت کرنے والے بھی بو۔
“ وہ خفا خفا سا علیحدہ ہو کر کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
”شی ازاے گریٹ پرسن ،میں چاہ کر بھی دادی جان کی طرح نہیں بن سکتا یار ،دادی جان بہت نائس ہیں۔“
”اور تم نان سینس ہو ،کئی ہفتے گزر جاتے ہیں اور تم پلٹ کر خبر لینا دور کی بات کال تک ریسیو کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہو یعنی بے مروتی و بے حسی کی حد ہی کر دی ہے تم نے۔“ معید کے شکوے شکایتیں کم ہونے میں نہیں آ رہی تھیں۔
”کول ڈاؤن مائی فرینڈ ،معاف کر دو مجھ سے غلطی ہو گئی۔“ اس نے سرعت سے اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے ،جاؤ معاف کیا اگلی دفعہ ایسی غلطی… غلطی سے بھی مت کرنا ورنہ بہت برا ہوگا۔“ وہ ناراضی ختم کرتا ہوا گویا ہو۔
”سنا ہے تمہارے بنگلے کی کنسٹرکشن بہت تیزی سے ہو رہی ہے پری مان گئی ہے کیا؟ تم نے گھر بسانے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے اور دوستوں سے راز داری برتی جا رہی ہے یہ دوستی ہے؟“
”تم نے یہ کس طرح سوچ لیا کہ میں زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ تمہارے بغیر کروں گا ایسی کوئی بات ہی نہیں ہے۔
”پری اپنی ضد پر ابھی تک قائم ہے اس نے تمہاری محبت قبول نہیں کی؟“ طغرل کو بے حد سنجیدہ دیکھ کر وہ استجابیہ انداز میں گویا ہوا۔
”محبت وہ تالی ہے جو دونوں ہاتھوں سے بجائی جاتی ہے یکطرفہ محبت ایک اذیت کا نام ہے ایک درد کا نام ہے یہاں صرف دکھوں و محرومیوں کا بسیرا ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔“
”پری اتنی سنگدل کس طرح ہو سکتی ہے؟“ وہ سخت حیران تھا۔
”سنگ دل ہی نہیں وہ بے حس اور اپنے آپ میں گم رہنے والی اذیت پسند لڑکی ہے۔“ طغرل کا موڈ ازحد سنجیدہ ہو گیا تھا اس کو پری کی وہ چیک دینے والی باتیں اس کا بے گانگی بھرا لہجہ و لاتعلقی کی دھند میں لپٹا لہجہ شدت سے یاد آ گیا تھا۔
”یار! وہ ایسی ہی ہے شروع سے اپنی پریشانیاں چھپانے والی کسی سے احسان لینا اس کو گوارا نہیں ہے خود داری اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
”خود داری نہیں ،خود پسندی و من مانی کہو ،وہ کسی کی عزت خراب کرنے میں ایک منٹ ضائع نہیں کرتی اور خود دار لوگ دوسروں کا بھی احساس کرتے ہیں۔“
”ہوں ،تم تو خاصے ناراض لگ رہے ہو پری سے؟“ وہ بغور دیکھتا ہوا بولا۔
”اس کو پروا بھی نہیں ہے اور اب میں بھی اس کی پروا نہیں کروں گا جو میری عزت نفس و وقار کی پروا نہ کرے مجھے بھی ایسا کرنا ہے۔“ وہ کرب سے آنکھیں بند کرتا ہو آزردگی سے کہہ رہا تھا۔
”سوچ لو ،ایسا کر پاؤ گے؟“
”کیوں نہیں کر پاؤں گا؟ میں نے کہا ہے نا ،محبت ،کی تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ایک ہاتھ سے سر پیٹا جا سکتا ہے یا سینہ۔“

   1
0 Comments